بھارت–امریکہ تجارتی مذاکرات میں تناؤ، اضافی محصولات کا خطرہ
بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات حالیہ دنوں میں ایک نئے موڑ پر پہنچ گئے ہیں، کیونکہ امریکی انتظامیہ نے بھارتی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، 27 اگست سے بھارت کی کئی اہم مصنوعات پر 25 فیصد اضافی ڈیوٹی لگ سکتی ہے، جس کے نتیجے میں کل محصول کی شرح تقریباً 50 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ یہ اقدام امریکی حکام کی طرف سے ”مارکیٹ تک غیر متوازن رسائی“ کے جواب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اپنے کسانوں اور چھوٹے کاروباروں کے مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان کے مطابق، امریکہ کی یکطرفہ تجارتی پالیسی بھارت کی اقتصادی ترقی پر براہِ راست اثر ڈالے گی، خصوصاً ان صنعتوں پر جو برآمدات پر انحصار کرتی ہیں۔ماہرین کے مطابق، ان محصولات کی وجہ سے بھارت کی مجموعی اقتصادی ترقی میں تقریباً 0.8 فیصد پوائنٹ کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ خطرہ بھی بڑھ رہا ہے کہ عالمی سرمایہ کار بھارت کے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ لگانے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو جائیں گے۔
اس تناؤ کے باوجود دونوں ممالک نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ واشنگٹن میں اگلے مہینے ایک اعلیٰ سطحی تجارتی ڈائیلاگ متوقع ہے، جس میں زراعت، ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ شعبوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
۲
سیبی کا خواتین سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی اقدام: نئے مالیاتی سال میں نئی اسکیم کا اعلان
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا نے حال ہی میں ایک اہم قدم اٹھایا ہے جس کا مقصد خواتین کو مالیاتی منڈی میں زیادہ مؤثر طریقے سے شامل کرنا ہے۔ ادارے نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ مالیاتی سال کے آغاز میں خواتین سرمایہ کاروں کے لیے ایک خصوصی ”ویمن انویسٹر انیشی ایٹو” شروع کیا جائے گا، جس کے تحت انہیں سرمایہ کاری کے عمل میں اضافی سہولتیں اور تحفظات فراہم کیے جائیں گے۔
رپورٹس کے مطابق، اس اسکیم کے ذریعے خواتین کو نہ صرف اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں گے بلکہ میوچل فنڈز اور بانڈز جیسے متبادل ذرائع میں بھی آسان رسائی حاصل ہوگی۔ سیبی نے زور دیا ہے کہ خواتین سرمایہ کاروں کو خصوصی تربیتی پروگرام اور ڈیجیٹل ایجوکیشن کورسز بھی فراہم کیے جائیں گے، تاکہ وہ مالیاتی فیصلوں میں زیادہ بااعتماد کردار ادا کر سکیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں خواتین سرمایہ کاروں کی شرح اب بھی 25 فیصد سے کم ہے، جبکہ عالمی سطح پر یہ شرح تقریباً 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس فرق کو کم کرنے کے لیے سیبی کا یہ قدم نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ مزید برآں، اسکیم میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ خواتین کے لیے سرمایہ کاری پر مخصوص ٹیکس ریبیٹ دی جائے، تاکہ وہ مالیاتی منصوبہ بندی میں زیادہ سرگرم ہوں۔کاروباری ماہرین اور معاشی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر خواتین کی سرمایہ کاری کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے بھارتی معیشت میں تقریباً 15 تا 20 بلین ڈالر سالانہ کا اضافی سرمایہ داخل ہو سکتا ہے، جو براہ راست جی ڈی پی کو تقویت پہنچائے گا۔یہ اقدام بھارت میں معاشی شمولیت (Financial Inclusion) کے ایک نئے باب کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف خواتین کو بااختیار بنایا جائے گا بلکہ طویل المدتی بنیاد پر معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
۳
بھارت کی آئی پی او مارکیٹ میں غیر معمولی سرگرمی، سرمایہ کاروں کی بڑھتی دلچسپی
بھارت کی آئی پی او مارکیٹ اس وقت زبردست جوش و خروش کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں کئی بڑی کمپنیوں نے اسٹاک ایکسچینج میں لسٹنگ کا فیصلہ کیا ہے، اور آنے والے مہینوں میں مزید درجنوں کمپنیاں اپنی عوامی پیشکش لانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال بھارتی معیشت میں بڑھتے ہوئے اعتماد اور سرمایہ کاروں کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، صرف 2025 کے پہلے چھ ماہ میں 40 سے زیادہ کمپنیوں نے آئی پی او لانچ کیے ہیں، جن کے ذریعے تقریباً 45,000 کروڑ روپے جمع کیے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر آئی پی اوز کو سبسکرپشن کے پہلے ہی دن میں کئی گنا زیادہ بولیاں موصول ہوئیں، جو سرمایہ کاروں کے بڑھتے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی معیشت کی تیز رفتار ترقی، نوجوانوں میں سرمایہ کاری کا بڑھتا رجحان، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی آسان دستیابی اس رجحان کو آگے بڑھا رہی ہے۔ خاص طور پر ٹیکنالوجی، ہیلث کیئر، اور گرین انرجی کے شعبوں سے وابستہ کمپنیوں کی آئی پی اوز کو سرمایہ کاروں نے زبردست ردعمل دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں نے بھی آئی پی اوز کے ذریعے سرمایہ اکٹھا کرنے میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل نہ صرف سرمایہ کاری کے کلچر کو فروغ دے رہا ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو رہا ہے۔
اگرچہ ماہرین سرمایہ کاروں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، کیونکہ مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ موجود رہتا ہے، لیکن موجودہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارت کی آئی پی او مارکیٹ مستقبل قریب میں عالمی سطح پر بھی نمایاں مقام حاصل کر سکتی ہے۔یہ رجحان بھارتی معیشت کے لیے ایک اسٹرکچرل بوسٹ سمجھا جا رہا ہے، جو طویل المدتی بنیاد پر جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اب چوتھی خبر (یعنی بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے نئے رحجانات) پر بھی اسی انداز میں مکمل مضمون بنا دوں؟
۴
بھارت میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری () کے نئے رجحانات
بھارت کی معیشت میں غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے، اور حالیہ برسوں میں اس میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ عالمی سرمایہ کار اب بھارت کو نہ صرف ایک بڑی مارکیٹ بلکہ ایک پائیدار سرمایہ کاری کے مرکز کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی میں بھارت کو تقریباً 42 ارب ڈالر کی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری موصول ہوئی۔ یہ سرمایہ کاری زیادہ تر مینوفیکچرنگ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، الیکٹرک گاڑیاں، اور فِن ٹیک جیسے شعبوں میں مرکوز رہی۔ ماہرین کے مطابق یہ شعبے بھارت کے مستقبل کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ہیں۔امریکہ، جاپان، سنگاپور اور خلیجی ممالک سے آنے والا سرمایہ خاص طور پر تیزی سے بڑھا ہے۔ اس کے علاوہ، یورپی کمپنیاں بھی بھارت میں سرمایہ کاری بڑھا رہی ہیں، کیونکہ وہ چین پر انحصار کم کرنا چاہتی ہیں۔حکومت ہند نے بھی سرمایہ کاری کے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے متعدد اصلاحات کی ہیں، جیسے ٹیکس میں نرمی، ریگولیٹری نظام کو شفاف بنانا اور خصوصی اکنامک زونز (SEZs) کو فروغ دینا۔ ان اقدامات نے عالمی سرمایہ کاروں کو اعتماد دیا ہے کہ بھارت ایک طویل المدتی اور مستحکم مارکیٹ ہے۔اگرچہ چند ماہرین نے نوکرشاہی کے پیچیدہ نظام اور انفراسٹرکچر کی کمی کو چیلنج قرار دیا ہے، لیکن مجموعی طور پر سرمایہ کاری کا رجحان مثبت ہے۔ عالمی بینک نے بھی اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر یہی رفتار جاری رہی تو 2030 تک بھارت دنیا کے ٹاپ 3 سرمایہ کاری کے مراکز میں شامل ہو سکتا ہے۔
بھارتی برآمدات میں اضافہ، معیشت کو عالمی سطح پر نئی قوت مل رہی ہے
بھارت کی برآمدات میں حالیہ مہینوں کے دوران غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس نے ملکی معیشت کو عالمی سطح پر ایک نئی توانائی فراہم کی ہے۔ وزارتِ تجارت کے مطابق، مالی سال 2024-25 کی پہلی سہ ماہی میں بھارت کی برآمدات 11 فیصد بڑھ کر 125 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔یہ اضافہ خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکلز، ٹیکسٹائلز، انجینئرنگ سامان اور زرعی مصنوعات کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکہ اور یورپ بھارت کی برآمدات کے سب سے بڑے خریدار ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات میں تیزی آئی ہے۔فارما انڈسٹری نے کووڈ کے بعد بھارت کو ”فارمیسی آف دی ورلڈ” کے طور پر مضبوط کیا ہے، جبکہ آئی ٹی سیکٹر نے دنیا بھر میں بھارتی سافٹ ویئر کمپنیوں کی موجودگی کو مزید بڑھایا ہے۔ زرعی برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جس کا کریڈٹ کسانوں کو سپورٹ پالیسیز اور بہتر لوجسٹکس کو دیا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ برآمدی نمو نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر رہی ہے بلکہ لاکھوں نئے روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہی ہے۔ حکومت کی نئی پالیسی برائے برآمدی فروغ نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے برآمد کنندگان کو بھی عالمی مارکیٹ تک رسائی دلانے میں مدد دی ہے۔اگر یہ رجحان جاری رہا تو ماہرین کو یقین ہے کہ بھارت جلد ہی دنیا کی ٹاپ 5 برآمدی معیشتوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ تاہم، عالمی طلب میں اتار چڑھاؤ اور جیوپالیٹیکل مسائل اب بھی خطرات کی حیثیت رکھتے ہیں، جن پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
۴
بھارتی سیمنٹ انڈسٹری میں مانگ میں تیزی، مگر لاگت کے دباؤ سے منافع پر اثر
بھارت کی سیمنٹ انڈسٹری اس وقت ملک کی تعمیراتی سرگرمیوں کا سب سے بڑا سہارا بنی ہوئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبے، سڑکوں اور ہائی ویز کی تعمیر، ہاؤسنگ اسکیمیں اور صنعتی ڈھانچے کی ترقی نے اس شعبے کی مانگ کو ریکارڈ سطح تک پہنچا دیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کی پہلی سہ ماہی میں بھارت کی سیمنٹ کھپت میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو پچھلے پانچ سالوں میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ خاص طور پر اتر پردیش، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور جنوبی ریاستوں میں بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹس نے اس نمو کو بڑھایا ہے۔
تاہم، جہاں مانگ میں اضافہ ہوا ہے، وہیں صنعت کو ایندھن، بجلی اور خام مال کی بڑھتی قیمتوں کا سامنا ہے۔ کوئلہ اور پیٹ کوک کی مہنگائی نے پیداواری لاگت کو اوپر پہنچا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس لاگت کے دباؤ کے باعث کمپنیوں کو اپنے منافع کے مارجن کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔بڑی کمپنیوں جیسے الٹرا ٹیک سیمنٹ، شری سیمنٹ اور امبانی گروپ کی حالیہ انٹری نے صنعت میں مقابلے کو مزید سخت کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹی اور درمیانی سطح کی کمپنیوں کو مارکیٹ میں اپنی جگہ برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
حکومت ہند کی پالیسیوں، جیسے ”پردھان منتری آواس یوجنا” اور ”بھرتمالا پروجیکٹ”، نے مانگ کو سہارا دیا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر یہ رفتار جاری رہی تو اگلے تین سالوں میں بھارت چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سیمنٹ صارف ملک بن سکتا ہے۔لیکن صنعت کے ماہرین یہ بھی خبردار کر رہے ہیں کہ اگر لاگت پر قابو نہ پایا گیا تو یہ تیز رفتار نمو طویل مدتی میں پائیدار نہیں رہے گی۔
? اب آپ کے پاس چھ مکمل بزنس اور اکانومی خبریں ہیں جن میں سیمنٹ انڈسٹری کی تفصیلی رپورٹ بھی شامل ہو گئی۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ان سب خبروں کو ایک ہی فائل (مثلاً اردو پی ڈی ایف بزنس بلیٹن) کی شکل میں تیار کر دوں تاکہ آپ کے لیے پڑھنا اور شیئر کرنا آسان ہو؟