شدید گرمی: محنت کش طبقے کے لیے نیا عالمی بحران

جاوید اختر
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے ایک تازہ رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی شدید گرمی اب دنیا بھر میں محنت کش طبقے کے لیے سب سے بڑا ابھرتا ہوا بحران بن چکی ہے۔ یہ خطرہ نہ صرف صحت کے لیے مہلک ثابت ہو رہا ہے بلکہ روزگار، معیشت اور سماجی ڈھانچے کو بھی براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدید گرمی کی لہریں زیادہ طویل، شدید اور بار بار آنے لگی ہیں، جس سے خاص طور پر زرعی مزدور، تعمیراتی کارکن اور ماہی گیری کے شعبے سے جڑے افراد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بچے، معمر افراد اور غریب طبقہ اس بحران کے سب سے بڑے شکار بنتے جا رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل جیریمی فیرر کے مطابق، یہ رجحان دنیا بھر میں لاکھوں محنت کشوں کی صحت اور روزگار کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو بڑھتی ہوئی گرمی عالمی سطح پر افرادی قوت کی کارکردگی کو بری طرح مفلوج کر دے گی۔
ریکارڈ توڑ گرمی اور پیداواری صلاحیت میں کمی
ڈبلیو ایم او نے تصدیق کی ہے کہ 2024 اب تک کا سب سے زیادہ گرم سال رہا، جس میں درجہ حرارت نے قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.55 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ریکارڈ کیا۔ کئی خطوں میں 40 ڈگری روز کا معمول بن گیا، جبکہ بعض ممالک میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس سے بھی تجاوز کر گیا۔ یہ اضافہ محنت کشوں کے لیے براہِ راست خطرے کا باعث ہے کیونکہ ہر ایک ڈگری اضافے سے کارکنوں کی پیداواری صلاحیت میں دو سے تین فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ نتیجتاً زرعی پیداوار، تعمیراتی ترقی اور صنعتی پیداوار میں کمی کے ساتھ عالمی معیشت پر بھی منفی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
شدید گرمی صرف کارکردگی ہی نہیں گھٹاتی بلکہ سرسام، پانی کی کمی، گردوں کی خرابی اور اعصابی امراض کو بھی جنم دیتی ہے۔ موجودہ وقت میں دنیا کی نصف آبادی بلند درجہ حرارت کے براہِ راست منفی اثرات کا سامنا کر رہی ہے۔
عالمی اداروں کی سفارشات اور چیلنجز
ڈبلیو ایچ او اور ڈبلیو ایم او نے مشترکہ طور پر زور دیا ہے کہ محنت کش طبقے کو گرمی سے بچانے کے لیے صنعتوں اور حکومتوں کو فوری طور پر مخصوص منصوبے اختیار کرنے ہوں گے۔ ان میں خاص طور پر بزرگ اور بیمار کارکنوں کو ترجیحی بنیادوں پر تحفظ دینا، طبی عملے اور آجروں کو گرمی کے اثرات پہچاننے اور ان کا علاج کرنے کی تربیت دینا، اور موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی نئی ٹیکنالوجی اور سستے، پائیدار اقدامات کا نفاذ شامل ہیں۔یہ سفارشات عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی اس رپورٹ پر بھی مبنی ہیں جس میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں تقریباً 2.4 ارب کارکن شدید گرمی کے خطرات میں ہیں۔ ان میں سے ہر سال 22.85 ملین کارکن گرمی سے جڑے حادثات اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
معیشت اور سماج پر اثرات
یہ بحران صرف مزدوروں یا کم آمدنی والے طبقے تک محدود نہیں بلکہ پوری معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں معیشت کا بڑا حصہ زرعی یا غیر رسمی شعبے پر منحصر ہے، وہاں یہ اثرات اور بھی شدید ہیں۔ محنت کش طبقہ اگر بیمار یا کمزور ہو جائے تو براہِ راست روزگار، گھریلو آمدنی اور سماجی استحکام متاثر ہوتا ہے۔ خواتین کارکن، بچے مزدور اور دیہی مزدور اس دباؤ کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔
ڈبلیو ایم او کی نائب سیکرٹری جنرل کو بیریٹ کے مطابق، اب یہ مسئلہ خطِ استوا تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں محنت کشوں پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس لیے مزدوروں کو گرمی سے بچانا محض ایک انسانی ہمدردی نہیں بلکہ اقتصادی بقا کا تقاضا بھی ہے۔
اجتماعی اقدامات کی ضرورت
آئی ایل او کے عہدیدار جوآکم پنٹاڈو نونیز نے کہا کہ یہ رپورٹ محنت کشوں کو بڑھتے ہوئے خطرے سے بچانے کے لیے ایک سنگ میل ہے۔ ان کے مطابق حکومتیں، آجر اور کارکنوں کو ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ نہ صرف زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے بلکہ معیشت کو بھی بحران سے بچایا جا سکے۔اقوام متحدہ کے اداروں نے واضح کیا ہے کہ فوری، مربوط اور بڑے پیمانے پر اقدامات اب اختیاری نہیں رہے بلکہ ناگزیر ہو چکے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کو نظر انداز کیا تو آنے والے برسوں میں گرمی کے سبب مزدور طبقے پر پڑنے والے منفی اثرات ایک بڑے سماجی و اقتصادی بحران کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
اہم سنگ میل
‘آئی ایل او’ میں پیشہ وارانہ تحفظ و صحت کے شعبے کے سربراہ جوآکم پنٹاڈو نونیز نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ کام کی دنیا میں شدید گرمی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف اجتماعی اقدامات میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔’آئی ایل او’ کے مینڈیٹ کے تحت یہ رپورٹ حکومتوں، آجروں اور کارکنوں کو موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے لیے مضبوط اور شواہد پر مبنی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔اقوام متحدہ کے دونوں اداروں نے واضح کیا ہے کہ زندگیوں، روزگار اور معیشتوں کو تحفط دینے میں شدید گرمی کے اثرات پر قابو پانا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فوری اور مربوط اقدامات اختیاری نہیں بلکہ لازمی اہمیت رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *